Ahmadiyya Muslim Jamaat India

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ہمسایوں کے حقوق کے بارہ میں نہایت ایمان افروز خطاب

معزز مہمانوں کی ملاقات

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھے بجے کے بعد معزز مہمانوں کی ایک مجلس میں تشریف لائے جہاں متعدّد ممبرانِ پارلیمنٹ بشمول ڈومینک گرِیو، ممبرانِ ایوانِ بالا، افواجِ برطانیہ کے سینئر افسران، پولیس کمشنر، مقامی کونسلرز اور دیگر موجود تھے۔

ایک مہمان نے حضورِ انور سے پوچھا کہ آپ کو لندن کے مقابلہ میں یہاں ٹلفورڈ میں رہنا کیسا لگ رہا ہے؟ حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے یہ جگہ پسند آئی ہے۔ یہاں تازہ ہوااور عمدہ ماحول ہے۔ اس سے ملتے جلتے ایک اور سوال کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام آباد کھلی جگہ ہے اور جماعت کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر رہا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں دیہی علاقوں میں بھی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی عمدہ سہولیات موجود ہیں۔

کرالی(Crawley)کے ممبر آف پارلیمنٹ نےحضورِ انور کو بتایا کہ وہ معاشرے کی بہتری میں جماعتِ احمدیہ کے مثبت کردار کی وجہ سے اس سے بہت متأثر ہیں۔

ایوانِ بالا (ہاؤس آف لارڈز) کے ایک ممبر نے حضورِ انور کی خدمت میں نئے مرکز کی تعمیر پر مبارک باد پیش کی۔ نیز حضورِ انور کی شدّت پسندی کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت احمدیہ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔

مرٹن کاؤنسل کے ایک کونسلر نے پوچھا کہ آیا اب بھی مسجد بیت الفتوح میں پہلے کی طرح پروگرامز ہوں گے۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ مسجد بیت الفتوح کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ میں اب بھی کئی خطباتِ جمعہ وہیں پر دیتا ہوں۔ اور وہاں پر پہلے کی طرح بھرپور انداز میں پروگرامزہوتے رہیں گے۔ حضورِ انور نے مسجد بیت الفتوح کی تعمیرِ نَو کی اجازت دینے پر مرٹن کونسل کا شکریہ بھی ادا کیا۔

افتتاحی تقریب کے بعد بھی کچھ مہمانوں نے حضورِ انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ اس ملاقات کے دوران ممبر آف پارلیمنٹ ایڈ ڈیوی(Ed. Davey) نے عرض کیا کہ وہ پورے برطانیہ کے دورے کر رہے ہیں کیونکہ وہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی حیثیت میں کھڑے ہو رہے ہیں۔

جواب میں حضورِ انور نے انہیں فرمایا کہ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ موصوف نے کہا کہ ہمارا ملک بہت ساری چیزوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ احمدی مسلمان اپنے ملک کی بہتری، سالمیت اور خوشحالی کے لیے دعا گو ہیں۔ موصوف نے کہا کہ بہت اچھا ہو کہ احمدی بھی پارلیمنٹ کے ممبران بنیں۔ حضورِ انو رنے فرمایا کہ ایک احمدی ایوانِ بالا کے ممبر ہیں۔ ان شاءاللہ مستقبل میں احمدی ایوانِ زیریں کے ممبر بھی بن سکتے ہیں۔
حضورِ انور نے مسجد مبارک کے سٹرکچرل انجینئر، مکینکل انجینئر اور آرکیٹکٹ سے مسجد مبارک کی تعمیر کے بارے میں گفتگو فرمائی اور ان کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔حضورِ انور نے فرمایا کہ انہیں دنیا بھر سے لوگوں کے خطوط موصو ل ہوئے ہیں جنہوں مسجد مبارک کی تعمیر اور اس کی خوبصورتی کو سراہا ہے۔




خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز

حضورِ انور ٹھیک 7؍ بجے شام منبر پر رونق افروز ہوئے۔ تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام معزز مہمانوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں آپ سب پر نازل ہوں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ سب سے پہلے میں اس موقع پر دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا پرخلوص شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج ہماری دعوت کو قبول کیا اور یہاں تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ کی اس علاقے سے وابستگی کو اب قریباً پینتیس برس ہو گئے ہیں جب ہم نے اس خطہ زمین کو خریدا جو شیپ ہیچ لین (Sheephatch Lane)پر واقع ہے اور اس کو اسلام آباد کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے یہاں ایک بورڈنگ سکول تھا جو 1977ء میں بند ہو گیا اور جہاں تک ہمیں علم ہے اس کے بعد یہ رقبہ استعمال میں نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جب 1980ء کی دہائی کے وسط میں جماعت نے اسے خرید لیا۔ جہاں پہلے کلاسیں ہوا کرتی تھیں یا طلباء کے بورڈنگ کے کمرے تھے کافی حد تک ان کی شکل یا ہیئت پہلے کی طرح قائم رکھی گئی لیکن بہت معمولی تبدیلیاں بھی کی گئیں تا کہ چھوٹے چھوٹے گھر ان میں تیار کیے جا سکیں جہاں جماعت کے مختلف کارکنوں اور کام کرنے والوں کے لیے رہائش کا انتظام کیا گیا اور یہ احمدی بڑی خوشی کے ساتھ یہاں رہائش پذیر رہے۔ پھر قریبا بیس سال تک ہم یہاں جماعت کے جلسہ ہائے سالانہ منعقد کرتے رہے۔ ان جلسوں کے موقعوں پر دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں افراد کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ 2005ء سے جماعت کا جلسہ سالانہ ایک اَور جگہ پر منتقل کیا گیا کیونکہ جلسے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر یہ جگہ بہت چھوٹی پڑ گئی۔ ٹریفک کے اور پارکنگ کے مسائل پیدا ہوئے جن سے یہاں کے مقامی رہائشی متاثر ہوئے اس لیے یہاں مزید جلسے منعقد نہیں کیے گئے۔ چند سالوں سے ہم آلٹن میں جلسہ منعقد کر رہے ہیں۔ ہم مقامی کونسل کا اور مقامی لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ان کا ہمارے ساتھ بھر پور تعاون رہا ہے۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بہرحال اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہوں یہ بات میرے لیے مناسب نہیں ہو گی کہ میں یہاں کے مقامی لوگوں اور کونسل کا شکریہ ادا نہ کروں کہ جنہوں نے اسلام آباد میں اتنے لمبے عرصہ تک ہمارے جلسوں کے انعقاد کی اجازت دی اور پھر تیس احمدی خاندانوں کو یہاں رہنے کی اجازت دی۔ اور اگر اس دور میں مقامی لوگوں کو ہمارے جلسوں یا کسی اَور وجہ سے تکلیف پہنچی ہو تو مَیں اس کے لیے ذاتی طور پر معذرت خواہ ہوں۔ یقیناً ہماری یہ نیت کبھی نہیں تھی کہ ہماری وجہ سے آپ کو کبھی کوئی تکلیف پہنچے کیونکہ ایک حقیقی مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھے اور بھرپور کوشش کرے کہ وہ کبھی بھی اپنے ہمسائے کے لیے کسی بھی قسم کی تکلیف کا باعث نہ بنے۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اب ماضی سے حال کی طرف آتے ہیں۔ میں اپنے دلی شکریہ کے جذبات کا اظہار پھر اپنے ہمسایوں سے کرتا ہوں اور تمام مقامی لوگوں سے کرتا ہوں جو اس علاقے میں رہتے ہیں اور مقامی کونسل کے ممبران کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بہت ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ان کی برداشت اور رواداری کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ اس کمپلیکس کی تعمیر میں بھی ان کا تعاون اور ان کی اجازت شامل ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کی توفیق عطا فرمائی ہے اور یہاں تیس خاندانوں کی رہائش کا انتظام فرمایا ہے ۔پھر ایک بڑے ہال کی تعمیر کی توفیق عطا ہوئی ہے اور اگر اس علاقے کے رہائشیوں کو اس ہال کی ضرورت پیش آئے تو جماعت کی طرف سے اس ہال کو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی فراہم کیا جائے گا۔

یہاں پر ہونے والی تعمیرات وہاں کھڑی کی گئی ہیں جہاں پرانی عمارات موجود تھیں اس لیے نئی تعمیرات کا covered یا مسقف حصہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا پہلے تھا لیکن چونکہ اس جگہ کی از سر نو تعمیر کی گئی ہے اس لیے یہ جگہ ہماری جماعت کی ضروریات کو بہت بہتر رنگ میں پورا کرنے والی ہے۔ اس لیے میں مقامی لوگوں کا اور کونسل کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی طرف سے ہمیں تعاون حاصل رہا۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ گو کہ یہاں جلسہ تو اب منعقد نہیں کیا جاتا لیکن اس مسجد کی چونکہ اس قدر گنجائش ہے کہ نمازیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں نماز ادا کرنے کے لیے آیا کرے گی اور خاص طور پر جمعہ کے روز نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جب لوگ آیا کریں گے تو اس سے یہاں ٹریفک کے بڑھنے کا بہرحال اندیشہ ہے اور وہ لوگ بھی جو یہاں پرروزانہ نماز پڑھنے آئیں گے اس کی وجہ سے یہاں ٹریفک میں بہرحال اضافہ ہو گا اور چونکہ میں اب یہاں رہائش پذیر ہوں اس لیے یہاں کی ٹریفک کی آمد و رفت بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔ روزانہ مجھ سے ملنے کے لیے ، نماز ادا کرنے کے لیے لوگ آتے ہیں اور چونکہ یہاں کی سڑکیں بہت تنگ ہیں اور یک رویہ ٹریک ہے اس لیے ایسے ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات یہاں کی ٹریفک پہلے کی نسبت بعض اوقات سست رو ہو۔ اس لیے میں اپنی جماعت کی طرف سے مقامی لوگوں سے کسی تکلیف پر پیشگی معذرت کرتا ہوں لیکن میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اپنی جماعت کے افراد کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے حقوق کا ہر وقت خیال رکھیں اور ہمیشہ یہاں گاڑیاں چلانے میں احتیاط برتیں اور قانون کا مکمل طور پر احترام کرتے ہوئے یہاں ڈرائیونگ کریں۔ یقینا آپ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہوں گے کہ چونکہ زیادہ لوگ یہاں پر آنے والے ہوں گے اس لیے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کبھی بھی یہاں پر گاڑیوں کی آمد و رفت میں یا سڑکوں میں رکاوٹ پیدا نہیں ہو گی یا ٹریفک یا گاڑیوں کی آمد و رفت سست روی کا شکار نہیں ہو گی لیکن میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آپ کو یہاں سے گزرتے ہوئے کم سے کم دقت کا سامنا ہو۔ یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ہم اپنے ہمسایوں کا خیال رکھیں کیونکہ اسلام تواتر کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کی ضروریات کا احساس کرنا چاہیے۔ مثلاً قرآن کریم میں سورۃ النساء کی سینتیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک انتہائی مؤثر ضابطہ اخلاق عطا فرماتا ہے اور مسلمانوں پر فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگیاں اس کے مطابق گزاریں اور مسلمانوں کی اس معاملے میں رہنمائی کرتا ہے کہ کس طرح وہ معاشرے میں دوسروں کے ساتھ سلوک کریں۔ جہاں ایک طرف اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہ آیت مسلمانوں کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دیتی ہے۔ مثلاً یہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ والدین کے ساتھ احسان اور محبت کا سلوک کریں کیونکہ بطور والدین وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہم سے محبت بالکل بے غرض ہو کر کی ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے بے شمار قربانیاں کی ہیں۔

پھر اس کے بعد مسلمانوں کو قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ بھی اور یتیموں سے بھی ہمدردی کی تعلیم دی ہے اور اس کے ساتھ مسکین لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی ہے اور پھر بڑے واضح انداز میں مسلمانوں کو ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ایسے ہمسائے جن کے ساتھ ان کی رشتہ داری ہے یا ایسے بھی جن کے ساتھ کوئی تعلق یا قرابت داری نہیں۔ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے سے یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ہمسایوں سے بہت محبت اور رواداری کا سلوک کیا جائے اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ کسی وقت بھی جب انہیں ہماری ضرورت پڑے تو ہم ان کی مدد کر سکیں یا کسی غم میں بھی ان کا غم بانٹ سکیں۔ ان کا انتہائی احترام کریں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ گو پھر اس کے علاوہ اسلام کے مطابق ایک ہمسائے کی تعریف بہت وسیع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کے ہمسائے صرف وہ نہیں جو آس پڑوس کے گھروں میں رہتے ہیں بلکہ اس میں کم از کم قریب ترین چالیس گھر شامل ہیں۔ پھر اس کے علاوہ قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ انسان کے ہمسائے اس کے کام میں اس کے ہم جلیس بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جو ان کے ساتھ کسی سفر میں شامل سفر ہوتے ہیں۔ اس کی روشنی میں ہم ان تمام لوگوں کو اپنا ہمسایہ سمجھتے ہیں جو اس علاقے میں رہتے ہیں یا ان سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے ہیں۔ اس لیے تمام احمدیوں پر یہ فرض ہے خواہ وہ اسلام آباد کے رہائشی ہیں یا مقامی علاقوں میں رہتے ہیں یا کہیں دور سے یہاں نمازیں ادا کرنے کے لیے آتے ہیں وہ ہر موقعے پر قوانین کا احترام کریں اور ہمارے ہمسایوں کے اس وسیع دائرے کا احترام کریں ان کا خیال رکھیں اور پوری کوشش کریں کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی ہماری وجہ سے نہ ہو۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں ذاتی طور پر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے حقوق کا بھر پور احترام کروں گا آپ کا پورا خیال رکھوں گا اور مسلسل میں اپنی جماعت کے افراد کو بھی ایسا کرنے کی تعلیم دیتا رہوں گا۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ انتہائی احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مسجد کو تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی جہاں ہم اکٹھے ہو کر ایک خدا کی عبادت کر سکیں ۔ ہمارا یہ عقیدہ ہےکہ اس مسجد کا افتتاح ہم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان کے حقوق پہلے سے بڑھ کر ادا کریں۔ یہ ہمارا کامل ایمان ہے کہ ہم اس وقت ہی اس مسجد کے قیام کے مقاصد کو انصاف کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکتے ہیں اگر ہم حقوق العباد کو ادا کرنے والے ہوں گے۔ یقیناً ہمارا مذہب ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں جو اسلام نے ہمیں عطا کیے ہیں۔ پھر قرآن کریم میں سورۃ البقرہ کی چوراسیویں آیت میں اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اپنے دلوں کو دوسروں کے لیے کشادہ کرو اور دوسروں کی ضروریات کے لیے اپنے دلوں میں ہمدردی پیدا کرو۔ اگر ایک احمدی مسلمان کا معیار اس معیار سے نیچے ہو گا تو ایسا شخص مرد یا عورت اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے والے نہیں ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ یہ کافی نہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت ایک مسجد میں کریں بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ مقامی لوگوں، ہمسایوں اور دوسرے آس پاس کے لوگوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنے والے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ جو بنی نوع انسان کے حقوق پورے نہیں کرتے ان کی نمازیں کبھی قبول نہیں کی جائیں گی بلکہ ردّ کردی جائیں گی۔ سو مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی مذہبی فریضہ ہے اور ہماری عبادت کا ایک اہم جزو ہے کہ ہم مقامی کمیونٹی کے بھی حقوق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کریں۔ اسی لیے جہاں کہیں بھی جماعت احمدیہ مسجد کا افتتاح کرتی ہے یا مسجد تعمیر کی جاتی ہے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ بالخصوص مقامی لوگوں کے حقوق اور بالعموم تمام معاشرے کے حقوق کی ادائیگی میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کی جاتی ہے۔ اور آپ جانتے ہوں گے کہ ہماری جماعت تمام دنیا میں مختلف جگہوں پر بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے رفاہی کاموں میں پیش پیش ہے خاص طور پر ان علاقوں میں ہم خدمت کر رہے ہیں جو دور دراز ہیں اور غربت کا اور مفلسی کا شکار ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور کمزوروں اور ناداروں کی دادرسی کریں اور ان کی مشکلات کو دور کریں۔ جہاں کہیں بھی ممکن ہوتا ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں تک مفت علاج کی سہولت پہنچائیں جو بنیادی علاج کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ پھر ہم نے اس مقصد کے حصول کے لیے کئی ہسپتال قائم کیے ہیں ، میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں اور کئی کلینک افریقہ میں کام کر رہے ہیں۔ یہ علاقے جہاں یہ خدمت کی جارہی ہے دنیا کے غریب ترین اور انتہائی پسماندہ علاقے ہیں۔ ہم نے پرائمری اور سیکنڈری سکول دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں کھولے ہوئے ہیں تا کہ وہاں کے بچوں کو بھی علم کی نعمت میسر ہو۔ مزید برآں انہیں مختلف قسم کے پیشہ وارانہ ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ ایسا علم اور ہنر انہیں میسر ہو جو انہیں مفلسی، غربت اور ناانصافی کے چنگل سے آزاد کر دے۔جس میں یہ لوگ کئی نسلوں سے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے علاوہ ہماری جماعت کے انجنیئرز باقاعدگی کے ساتھ رضاکارانہ طور پر دور دور کے سفر اختیار کرتے ہیں تا کہ پانی کے پمپ اور کنوئیں لگائیں اور دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں تک پانی کی سہولت پہنچ سکے۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں بھی ذاتی طور پر افریقہ میں رہا ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس خطے میں کس قدر غربت ہے اور لوگ کس قدر محرومی کا شکار ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ بچے جن کی عمر سکول جانے کی ہے وہ کئی کئی میل روزانہ پیدل چلتے ہیں اور پانی مہیا کر کے اپنے خاندانوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو سکول اس لیے نہیں جا سکتے کیونکہ ان کی ذمہ داری بہت سخت ہے کہ انہیں اپنے خاندان کا خیال رکھنا ہے اور اس وجہ سے وہ تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں۔ پھر دوسرے ایسے بچے ہیں جو سکول تو جاتے ہیں مگر سکول کے اوقات کے بعد نہایت صبر آزما اور شدید سفر اختیار کرتے ہیں۔ اس انتہائی غربت اور ناامیدی میں مبتلا لوگوں کے گھروں کے قریب جب کنوئیں یا پمپ لگائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ انہیں پینے اور گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صاف پانی مہیا ہوتا ہے آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان کے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کے کیا تاثرات ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے کی طمانیت اور اس مسرت اور خوشی کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا جب وہ پانی کو پہلی مرتبہ اپنی دہلیز کے سامنے مہیا پاتے ہیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور رفاہ عامہ کے کاموں کے سلسلہ میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاتی۔ اس سلسلہ میں مذہب یا عقیدے سے قطع نظر ہر ضرورت مند کی مدد کی جاتی ہے۔ اس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص عیسائی ہے، ہندو ہے، سکھ ہے یا لادین ہے یا اس کا کسی اور مذہب سے تعلق ہے۔ ہمارا واحد مطمح نظر یہی ہے کہ ہم ہر معصوم اور محروم کو اس کی تکلیف سے نجات دلا سکیں تاکہ وہ بھی باوقار زندگیاں گزار سکیں۔ اس لیے جہاں کہیں بھی ہم کسی مسجد یا مرکز کو قائم کرتے ہیں تو اس بات سے قطع نظر کہ ضرورت مند کون ہے ہماری سوچیں اور توجہات اس ذمہ داری کی طرف اَور بھی زیادہ مرکوز ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم دیکھیں کہ کوئی بھی شخص کسی قسم کی مشکل کا شکار ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مشکل کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ مثلاً قرآن کریم کی سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کی گردنیں آزاد کریں جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ سورت مسلمانوں کو تعلیم دیتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور کمزور اور مغلوب طبقوں کی داد رسی کریں جس میں یتیم اور مریض بھی شامل ہیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ قرآن کریم یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ جو دوسروں کے لیے ہمدردی نہیں رکھتے وہ تقویٰ سے دور ہو جاتے ہیں۔ انہیں اندھیر ااور ظلمت کے اس رستے پے لے جایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی پناہ سے دور لے جانے والا ہے۔ اس لیے ہمارا یہ مشن ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کریں اور جب یہاں ہم نے مسجد تعمیر کی ہے اور سرے (Surrey) میں اپنا مرکز قائم کیا ہے ہمارا یہ بھی مقصد ہے کہ ہم اس ضمن میں اپنی کوششوں کو مزید بڑھائیں تا کہ ہم بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کر سکیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہماری انسانیت کے لیے خدمت کی کوششیں صرف غیر ترقی یافتہ ممالک میں نہیں بلکہ ہم اپنے مقامی معاشرے کی بہتری کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ مثلاً یہاں برطانیہ میں ہماری جماعت نے مختلف پراجیکٹ شروع کیے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ یہاں کے شہریوں کی بھی مشکلات دور کی جا رہی ہیں۔ ہم مسلسل ایسے فنڈ ریزنگ کے یا عطیات جمع کرنے کے پروگرام کرتے رہتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ موصول ہونے والی رقوم کے ذریعہ برطانوی چیریٹی اداروں کی مدد کی جاتی ہے۔ جہاں تو ہم براہ راست لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں وہاں ہم کرتے ہیں اور اگر ایسے علاقے ہوں جہاں تک ہماری رسائی نہیں تو پھر ہم ایسے بعض چیریٹی اداروں یا رفاہی اداروں کے ساتھ مل کر ان علاقوں تک پہنچتے ہیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہم اس کے بدلے میں کوئی تعریف یا ستائش نہیں چاہتے اور نہ ہی ہم اپنی خدمت کا دائرہ چند مخصوص افراد یا مخصوص قوم و مذہب کے لوگوں تک محدود رکھتے ہیں اس لیے یہ واضح ہو کہ بنی نوع انسان کے لیے ہماری خدمت رنگ و نسل اور مذہب کے امتیاز سے بالا تر ہے۔ یہی ہمارا مشن ہے، یہی ہماری پہچان ہے اور یہی اسلام ہے۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اپنی تقریر کے آخر میں ایسے لوگوں کے لیے جن کو جماعت کے ساتھ پوری طرح سے ابھی تعارف حاصل نہیں میں بتاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک سو تیس برس قبل قائم فرمایا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ چودہ سو سال کے بعد مسیح موعود اور امام مہدی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اور یہ بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہو گی تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دوبارہ سے اجاگر کیا جائے۔ ہم احمدی مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے بانی کو اللہ تعالیٰ نے اسی پیشگوئی کے مصداق کے طور پر مبعوث فرمایا جنہوں نے جماعت کی بنیاد 1889ء میں ہندوستان کے ایک دور دراز گاؤں میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا کے دو سو بارہ ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جہاں کہیں بھی ہماری جماعت کے افراد موجود ہیں اور جہاں وہ حقوق اللہ کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ذریعہ کرتے ہیں اور اس کام کے لیے مساجد تعمیر کرتے ہیں وہ اس بات کو اپنے دین کا لازمی جزو سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی بھی خدمت کریں۔ جب سے ہم نے اسلام آباد کی زمین خریدی ہےیہاں بھی ایسا ہی رہا ہے۔ جب سے ہم یہاں آئے ہیں ہم نے یہاں کے مقامی معاشرے میں اپنے آپ کو جذب کیا ہے اور اس کا یہ ثبوت ہے کہ آپ میں سے کئی ہمارے پرانے دوست بھی ہیں اور یہ بھی کہ دو احمدی مسلمان جو اسلام آباد کے رہائشی ہیں ویورلی (Waverley) کونسل کے ممبر بھی ہیں۔ ہمیں مقامی معاشرے سے الگ تھلگ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو معاشرے میں جذب کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے مقامی معاشرے کی خدمت کریں اور اس کے لیے مفید ثابت ہوں۔ یقیناً میری نظر میں حقیقی انٹگریشن(integration) یا معاشرے میں جذب کرنے کی تعریف یہی ہے کہ اپنے اس ملک کے ساتھ مکمل وفادار ہوا جائے جہاں انسان کی سکونت ہے۔ ملک کے قوانین کی پاسداری کی جائے۔ مقامی کمیونٹی کی خدمت کی جائے اور جو کوئی بھی ہنر یا استعدادیں انسان کو ودیعت ہیں وہ اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جائیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ آخر میں ایک مرتبہ پھر اس بات پر میں اپنے شکریہ کے جذبات کے اظہار کے لیے کہ اس جگہ کی تعمیرِ نَو کا ہمیں موقع ملا ہے جو ہماری جماعت کا مرکز ہے میں کہتا ہوں کہ تمام احمدی مسلمان جو یہاں رہتے ہیں یا آس پاس کے رہائشی ہیں آپ کا خیال رکھنے اور آپ کے حقوق پورے کرنے میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنے والے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ یہ مسجد اور یہ مرکز امن و سلامتی اور خدمت انسانیت کا ایک عظیم الشان نشان بن کر ابھرے گا۔ اور ایک روشنی کا ایسا مینار ثابت ہو گا جس کی روشنی آسمان کو چھوئے گی اور جس کی بنیاد باہمی محبت ، رواداری اور ہمدردی پر ہو گی۔

ان الفاظ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس پرمسرت موقع پر ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ بہت بہت شکریہ

...........................

سات بج کر 27 منٹ پر خطاب کا اختتام ہوا۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ بعد ازاں عشائیہ پیش کیا گیا۔


الفضل انٹرنیشنل 2 جولائی 2019ء

Meetings With Huzoor (aba) » index